مضمون کی تفصیل
’ہتھیار، خوراک، ادویات، تیل کی پائپ لائن، بجلی کی تاریں، ٹیلی فون کیبل اور لوگ‘۔
49 سالہ ایدیس کولار کی فہرست صرف یہیں ختم نہیں ہوتی اور وہ اس میں اضافہ کرتے ہیں۔
’فوجی، عام شہری، زخمی اور یہاں تک کہ مرنے والوں کی لاشیں بھی۔۔۔ اس کے ذریعے تقریباً ہر وہ چیز گزری جو سرنگ سے گزر سکتی تھی۔ یہ محصور سرائیوو کا واحد دروازہ تھا۔‘
وہ سرائیوو سرنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جسے عام طور پر ’امید کی سرنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1993 میں ان کے دادا، دادی کے گھر کے نیچے تعمیر کی گئی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب بوسنیا کی جنگ زوروں پر تھی۔ 1990 کی دہائی میں بلقان میں ہونے والی اس لڑائی میں ایک لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں اور 22 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں یوگوسلاویہ کے سقوط کے دوران، بوسنیا اور ہرزیگووینا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ یہ نسلی اعتبار سے ملک کا سب سے متنوع حصہ تھا۔
بوسنیا اور ہرزیگوینا میں بسنے والے مسلمانوں، سرب اور کروٹس کے مابین برسوں کی تلخ لڑائی کے بعد 1995 میں مغربی ممالک کی مداخلت کے بعد جنگ بندی ہوئی اور یوگوسلاویہ کا وجود 1999 میں ختم ہو گیا تھا۔ ’امید کی سرنگ‘ جو جنگ کے دوران تقریباً
بوسنیا کی جنگ کے دوران چار سال تک بوسنیا اور ہرزیگوینا کا دارالحکومت سرائیوو محاصرے میں رہا۔
یہ 20ویں صدی میں جدید یورپی تاریخ کا سب سے طویل محاصرہ تھا جس کے بعد نازیوں کی جانب سے دوسری عالمی جنگ کے دوران لینن گراڈ کا 872 دن کا محاصرہ آتا ہے۔
ایک میٹر چوڑی، 1.7 میٹر اونچی اور تقریباً 800 میٹر لمبی ’امید کی سرنگ‘ اس وقت سرائیوو کے تقریباً چار لاکھ لوگوں کی بقا کا واحد ذریعہ تھی اور اس کے ذریعے ہتھیاروں، رسد اور شہریوں کی نقل و حرکت ممکن تھی۔ ’امید کی سرنگ‘ جو جنگ کے دوران تقریباً