حزب اللہ لبنان میں ایک طاقتور سیاسی اور فوجی قوت ہے جو اِس وقت اسرائیل کے فضائی حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ مگر لبنان میں حزب اللہ کو کتنی حمایت حاصل ہے اور اس جنگ میں کون اس کے ساتھ کھڑا ہے اور کون مخالف؟
حزب اللہ ایک بڑی عسکری طاقت ہے
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی بنیادی وجہ لبنانی معاشرے میں شیعہ جماعت (حزب اللہ) کے کردار پر گہری تقسیم کا پس منظر ہے۔
حزب اللہ نے اسرائیل پر راکٹ داغنے کا سلسلہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد شروع کیا تھا اور اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی۔
تاہم لبنان میں حزب اللہ کے حامی اور اُس کے مخالف افراد کے درمیان موجود تقسیم کو آسانی سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ کئی برسوں سے حزب اللہ کے بارے میں مختلف آرا ملک میں تقریباً ہر سیاسی بحث کا مرکز رہی ہیں۔
لبنان ایک ایسا ملک ہے جہاں مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی مقابلے میں رائے کے اظہار کی کافی زیادہ آزادی ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کی حمایت یا اُس کی مخالفت عوامی اور نجی سطح پر گفتگو کا ایک اہم نکتہ رہتی ہے۔
بطور ایک لبنانی شہری مجھے یاد نہیں پڑتا کہ حزب اللہ، اُس کے سیاسی اثر و رسوخ اور اُس کے فوجی ہتھیاروں کے بارے میں کوئی گرما گرم مباحثے نہ ہوئے ہوں۔
کثیر جہتی حکمت عملی
لبنان کے سب سے طاقتور فوجی گروہ اور اُس کے نمایاں سیاسی کھلاڑیوں کے بارے میں لوگوں کے مؤقف کی وضاحت کرتے وقت بہت سی پرتوں کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ لبنان ایک کثیر المسلکی ملک ہے جہاں مذہبی شناخت سیاست پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
حزب اللہ کے بیشتر حامی شیعہ مسلمان ہیں، اور اس کے ناقدین اور مخالفین کی ایک بڑی تعداد غیر شیعہ ہے، جن میں سُنی مسلمان اور مسیحی بھی شامل ہیں۔
لیکن یہ بات صرف ایک حد تک درست ہے۔ لبنان میں مختلف مذہبی اور نظریاتی وابستگیوں کے حامل اہم گروہ موجود ہیں جو حزب اللہ کے سخت مخالف ہیں۔ اُن میں سے اکثر حزب اللہ کو ایرانی پراکسی سمجھتے ہیں بلکہ اسے ایک ایسی تنظیم سمجھتے ہیں جو لبنانی حکومت کی اہمیت اور اختیارات کو نہ صرف کمزور کرتی ہے بلکہ یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ لبنان جنگ میں مصروف عمل ہے یا امن کی حالت میں ہے۔ یہ مخالف گروہ حزب اللہ کے طاقتور عسکری ونگ کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو حزب اللہ سے بہت سے معاملات پر اختلاف کرتے ہیں مگر اس کی عسکری طاقت کی حمایت کرتے ہیں۔
- لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
- ’حزب اللہ کو کچلنے کا جُوا مگر اسرائیل کا سامنا مشتعل اور مسلح دشمن سے ہے‘
- آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا
- ’بات نہ کرو ، گولی مارو‘: اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایران میں جاسوسی کارروائیوں کی تاریخ
کچھ عرصہ پہلے تک حزب اللہ کے اہم سیاسی حلیفوں میں سے ایک اُس وقت کی سب سے بڑی مسیحی جماعت، فری پیٹریاٹک موومنٹ تھی۔ گذشتہ کئی برسوں سے حزب اللہ اور فری پیٹریاٹک موومنٹ کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت کرنے کا معاہدہ تھا۔ اس سیاسی اتحاد سے جہاں فری پیٹریاٹک موومنٹ کو ایک قابل قدر شیعہ سیاسی جماعت کا ساتھ ملا وہیں حزب اللہ نے ایک مسیحی سیاسی حمایت حاصل کی، ایک ایسی مسیحی سیاسی جماعت جو حزب اللہ سے فوری طور پر تخفیف اسلحہ کا مطالبہ نہیں کر رہی تھی۔
اگرچہ اب دونوں گروہوں کے درمیان یہ سیاسی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لبنان میں مختلف گروہ کس طرح مذہبی خطوط پر اتحاد بنا سکتے ہیں۔
غیر منظم سرکاری فوج
موجودہ تنازعے کے آغاز کے بعد سے اسرائیل حزب اللہ کے کئی سینئر ارکان کو ہلاک کر چکا ہے
اب صورتحال یہ ہے کہ لبنان میں چند گروہ حزب اللہ سے اسلحہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کے حمایتی ہیں اور اس حمایت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ کی عسکری قوت بہت زیادہ ہے۔
حزب اللہ کی عسکری طاقت اور اُس کے مقابلے میں لبنان کی سرکاری فوج کے نسبتاً کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ کا خیال ہے کہ ایک کمزور فوج کی وجہ سے حزب اللہ کا طاقتور ہونا اور طاقت کے مزید حصول کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
اسرائیل نے لبنان پر سب سے پہلے سنہ 1982 میں حملہ کیا تھا جس کے بعد وہ سنہ 2000 تک جنوبی لبنان کے چند حصوں پر قابض رہا تھا اور آج بھی لبنان کے کچھ حصے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔
لبنان میں حزب اللہ کی عسکری فوج وہ واحد قوت ہے جو گذشتہ دہائیوں میں مؤثر طریقے سے اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
لبنانی فوجغیر منظم ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور، پرانے اور محدود ہتھیاروں سے لیس ہے اور اسلحے اور گولہ بارود کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اس صورتحال کے باعث لبنان میں بہت سے لوگ حزب اللہ کی عسکری قوت کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتے رہتے ہیں حالانکہ وہ عام طور پر اس جماعت کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتے ہیں۔
اتحادی محاذ
لبنان میں ہمدردیوں، دشمنیوں اور سیاسی اتحادوں کا پہلے سے موجود پیچیدہ جال حالیہ تنازع اور بحران کے دوران مزید تبدیل ہو سکتا ہے۔
تاہم موجودہ صورتحال میں لبنان میں بہت سے لوگوں اور گروہوں نے اپنے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے افراد جنھوں نے غزہ کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف حملے شروع کرنے کے حزب اللہ کے فیصلے پر تنقید کی ہے اور حزب اللہ پر ملک کو ایک سنگین بحران میں گھسیٹنے کا الزام لگایا تھا، وہ بھی موجودہ صورتحال میں اظہار یکجہتی کرتے دکھائی دیے ہیں۔
لبنان میں واکی ٹاکیز، پیجر اور وائرلیس آلات پھٹنےکے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک، زخمی یا معذور ہوئے تھے اور حزب اللہ نے اِس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا تاہم فی الحال اسرائیل نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حزب اللہ کے لیے یہ حمایت جنوبی لبنان اور وادی البقاع پر بڑے پیمانے پر اسرائیلی فضائی حملے کے آغاز کے بعد اور بیروت کے ایک بہت پُرہجوم جنوبی مضافاتی علاقے دحیہ کو نشانہ بنانے کے بعد مزید تیز ہوئی ہے۔
اس کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے – جن میں بہت سے بچے ہیں۔ ان حملوں کے بعد بہت سے لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی بھی کی ہے۔
بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل معاواد کا کہنا ہےکہ ’یہ حزب اللہ کے لیے ایک فطری حمایت ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ لبنان میں حزب اللہ مخالف گروپوں میں بھی وسیع پیمانے پر اسرائیل مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ داخلی تقسیم کو موجودہ صورتحال میں ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھنا چاہیے۔ یہ کوئی نظریاتی یا سیاسی نقطہ نظر نہیں ہے، لیکن یہ اسرائیل کے مظالم کے پس منظر میں ایک فطری عمل ہے۔‘
لیکن لبنان میں حزب اللہ کے حوالے سے تقسیم نمایاں طور پر برقرار ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اس تقسیم کو مزید بڑھاوا دینے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔
جب اسرائیلی جیٹ طیاروں نے لبنان کے جنوب اور وادی البقاعپر بمباری کی تو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے لبنانی عوام کے نام ایک پیغام میں کہا کہ ’اسرائیل کی جنگ آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ حزب اللہ کے ساتھ ہے۔‘
حزب اللہ لبنان کے اندر کتنی حمایت برقرار رکھ سکتی ہے، اس کا دارومدار اس ایک اہم عنصر پر ہو سکتا ہے کہ آیا سرحد پار بحران بڑھتا یا پھیلتا ہے۔
اسی بارے میں
- حزب اللہ کیا ہے اور وہ عسکری لحاط سے کتنی طاقتور ہے؟
- لبنان میں اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو ’اشتعال‘ دلایا: یہ تنظیم اسرائیل پر حملے کے لیے کتنی تیار ہے؟
- ’اگر ہم میانمار، غزہ، انڈیا کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہیں تو ہم مسلمان نہیں‘: ایرانی رہبر اعلیٰ کا بیان جس پر انڈیا کو تشویش ہے
- حزب اللہ: ’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘ ماضی کے مقابلے میں آج کتنا طاقتور ہے؟
- اسرائیل میں نتن یاہو کے خلاف مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں اور آگے کیا ہو سکتا ہے؟
- ایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟