تعارف
تصور کریں کہ آپ نے ایک مہنگی ترین سپر کار آرڈر کی ہو، اور پھر اچانک خبر ملے کہ وہ کار سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو چکی ہےسمندر کی تہہ میں ڈوبی 4000 سپر کاریں: فیلِسٹی ایس کا دل دہلا دینے والا واق
۔ جیسمندر کی تہہ میں ڈوبی 4000 سپر کاریں: فیلِسٹی ایس کا دل دہلا دینے والا واقعہ
ہاں، یہ کوئی فلمی کہانی نہیں بلکہ 2022 میں پیش آنے والا ایک حقیقی واقعہ ہے، جب دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں لے جانے والا کارگو جہاز فیلِسٹی ایس آگ لگنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں ڈوب گیا۔ اس ویڈیو میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح یہ حادثہ پیش آیا، اس کے نقصانات کیا تھے، اور یہ دنیا کے لیے کیا پیغام چھوڑ گیا۔
واقعہ کی تفصیلات
فیلِسٹی ایس نامی کارگو جہاز 16 فروری 2022 کو جرمنی سے امریکہ جا رہا تھا، جب بحرِ اوقیانوس میں اس پر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ اس جہاز میں 4,000 سے زائد مہنگی سپر کاریں موجود تھیں، جن میں پورشے، بینٹلی، لیمبورگینی، اور آؤڈی جیسی دنیا کی مشہور کاریں شامل تھیں۔ یہ گاڑیاں ووکس ویگن گروپ کی جانب سے جرمنی سے امریکہ کی منڈیوں تک پہنچائی جا رہی تھیں، جن کی کل قیمت تقریباً 400 ملین امریکی ڈالر تھی۔
جہاز میں آگ کیسے لگی؟
آگ لگنے کی صحیح وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا، مگر اس واقعے میں لِتھیئم آئن بیٹریوں کے کردار پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے، جو کچھ برقی گاڑیوں میں نصب تھیں۔ یہ بیٹریاں جب ایک بار آگ پکڑ لیتی ہیں، تو انہیں بجھانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے، اور آگ شدت اختیار کر جاتی ہے۔
عملے کی حفاظت
فیلِسٹی ایس پر سوار 22 عملے کے ارکان کو فوری طور پر بچا لیا گیا۔ پرتگال کی بحریہ نے وقت پر پہنچ کر عملے کو ایئرلفٹ کر کے محفوظ مقام تک منتقل کیا۔ عملے کو بچانے کے بعد جہاز کو سمندر میں چھوڑ دیا گیا، تاکہ آگ مزید نہ پھیل سکے۔
جہاز کو بچانے کی کوشش
پرتگال اور دیگر ممالک کے ماہرین نے جہاز کو بچانے کی کئی کوششیں کیں، اور اسے محفوظ مقام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ مگر آگ کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کے باعث ان کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاز تقریباً دو ہفتے سمندر میں بہتا رہا، اور آخر کار 1 مارچ 2022 کو بحرِ اوقیانوس میں آزورس جزائر کے قریب ڈوب گیا۔
نقصانات
جہاز کے ڈوبنے سے نہ صرف 4000 سپر کاروں کا نقصان ہوا، بلکہ یہ ایک ماحولیاتی مسئلہ بھی بن گیا۔ جہاز میں موجود ایندھن، تیل اور لِتھیئم آئن بیٹریوں کے کیمیکلز کے باعث سمندر کو آلودگی کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ کیونکہ جہاز سمندر کی گہرائی میں ڈوبا تھا، اس لیے اسے بچانے یا صاف کرنے کی کوئی عملی صورت باقی نہ رہی۔
متاثرہ گاڑیاں
فیلِسٹی ایس پر موجود گاڑیاں پورشے، بینٹلی، لیمبورگینی، آؤڈی اور دیگر مشہور برانڈز سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان گاڑیوں کی کل مالیت تقریباً 400 ملین امریکی ڈالر تھی۔ ان گاڑیوں کو امریکہ کی منڈیوں تک پہنچایا جا رہا تھا، اور بہت سے صارفین اپنی مخصوص آرڈر کی گئی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے۔
پورشے کے تقریباً 1100 گاڑیاں تھیں۔
بینٹلی کے 189 گاڑیاں شامل تھیں۔
لیمبورگینی کی بھی کئی نایاب اور مہنگی ترین گاڑیاں اس حادثے کا شکار ہوئیں۔
برقی گاڑیاں اور آگ کا خطرہ
اس واقعے نے برقی گاڑیوں میں استعمال ہونے والی لِتھیئم آئن بیٹریوں کے خطرے کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ جب یہ بیٹریاں کسی حادثے کا شکار ہوتی ہیں، تو ان میں آگ لگنا عام بات ہے اور اس آگ کو بجھانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے فیلِسٹی ایس کا حادثہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گیا، کیونکہ جہاز پر موجود بیٹریوں نے آگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ماحولیاتی خطرات
جہاز میں موجود کیمیکلز اور ایندھن نے سمندر کے ماحول کے لیے خطرہ پیدا کیا۔ ماہرین کو خدشہ تھا کہ جہاز کے ڈوبنے سے تیل رسنے اور بیٹریوں کے کیمیکلز سے سمندری ماحول کو نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ جہاز انتہائی گہرے سمندر میں ڈوبا، اس لیے اس کی صفائی اور بچاؤ کا کام کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوا۔
نتیجہ
فیلِسٹی ایس کا یہ حادثہ عالمی منڈیوں میں سپر کارز کی فراہمی پر اثر انداز ہوا اور اس کے ساتھ ہی سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا۔ اس حادثے نے نہ صرف برقی گاڑیوں کے چیلنجز کو اجاگر کیا بلکہ سمندری نقل و حمل میں حفاظتی اقدامات کی ضرورت کو بھی نمایاں کیا